دیارِ ہند میں رب کی عطا غریب نواز
رسولِ ہاشمی کی ہیں رضا غریب نواز
بروزِ حشر مجھے بخشوا غریب نواز
ترے ہی در کا ہوں ادنیٰ گدا غریب نواز
فیوضِ چشت سے سرشار اِس کو بھی فرما
غریب در پہ ترے ہے کھڑا غریب نواز
یہی تو جن و ملک، انس و جاں کے لب پر ہے
ہے رشکِ باغِ ارم در ترا غریب نواز
سمایا کوزے میں ساگر کو آپ نے جس دم
زمانہ دیکھ کہ حیراں ہوا غریب نواز
دیارِ ہند میں دیں کا چمن جو ہے شاداب
ترے ہی فضل و کرم سے کِھلا غریب نواز
تمیمِ خستہ کی امداد ہو دمِ آخر
ہو اِس کا خاتمہ بالخیر یا غریب نواز